تحریر: عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی। سیمینار شروع ہونے جا رہا تھا۔ شرکت کےلئے قدم بڑھ رہے تھے۔ لیکن قدم قدم پر پاؤں ٹھٹھک رہے تھے۔ دل مضطرب و بے چین تھا۔ خیر! آخرکار سیمینار ہال میں پہنچ ہی گیا۔ خطیب کا چہرہ بگڑا ہوا تھا۔ غصے میں اسکا رنگ بدلا ہوا تھا۔ غصے میں اندھا ہوکر دوسرے مکتبِ فکر کے ماننے والوں کو کافر قرار دے رہا تھا۔ اسکے حواری بھی جلتے پر تیل کا کام کر رہے تھے۔ میں ان کے جاہلانہ دعوے، بے بنیاد اور بغیر دلیل کے کی جانے والی باتیں اور کھوکھلے نعرے سن کر ورطہ حیرت میں مبتلا تھا۔ اس جدید دور میں بھی یہ لوگ کس حد تک جہالت کا شکار ہیں۔ ایسے میں میں الٹے پاؤں وہاں سے نکل آیا۔
میں غصے سے بھڑکا ہوا راستہ طے کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں کسی درویش سے سامنا ہوا۔ وہ میری حالت کو دیکھتے ہی مسکرانے لگا۔ انہوں نے اپنی باتوں سے میرے سر پر آئی بلا کو ٹال دیا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے: "کبھی بھی احساسات کو عقل پر غالب مت آنے دینا ورنہ عقل کے گلزار میں زندگی بسر کرنے کی بجائے احساسات کی آگ میں جھلس جاؤ گے"۔ درویش بات بات پر موتی پرو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: "ہاں! یہ بھی یاد رکھو کہ بغیر کسی دلیل کے اور دوسروں کے نظریے کو مکمل بغیر کسی پر الزام تراشیاں اور تنقید کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے"۔درویش یہ بات کر کے چلا گیا۔ جسے سن کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
میں نے درویش کی باتوں کو پلے باندھ لیا اور آگے قدم بڑھانا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک ایک دوست لبوں پر تبسم لئے میری طرف آرہا تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں سوال کرنے لگا، "خیریت تو ہے اتنا خوش کیوں ہے؟" دوست نےکہا: "فلان جگہ مشرق وسطی کی طاقتور ترین اور طلسماتی شخصیت کے موضوع پر عالمی سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا ہے۔" جب میں نے یہ خبر سنی تو میں خوشی سے اچھل پڑا. دوست میری رگ رگ سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا میں حقیقت کا متلاشی ہوں اور بغیر دلیل کسی بات کو قبول نہیں کرتا ، اسی لئے ہی تو میں اکثر سیمیناروں میں شرکت کرتا ہوں۔چونکہ سیمینارز وغیرہ میں نظریات پر بات ہوتی ہے۔ نظریات ہی ہیں جو قوموں کو بلندی کی طرف پرواز کرنا سکھاتی ہے۔ نظریات ہی ہیں جو کسی قوم کے مسائل کو حل کرتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے سب نظریات نہیں بلکہ وہ نظریات جن کے پیچھے ایک ٹھوس دلیل موجود ہو۔ اسی لئے دوست نے مجھے اپنے ساتھ اس عالمی سیمینار میں ساتھ لے جانے کا اہتمام کیا تھا۔
اب میں پوچھ رہا تھا کب جانا ہے؟ اس نے کہا "بس دو گھنٹے تک" میں نے جلدی میں کہا؛ "یار جلدی گھر چلو پھر کپڑے بھی تو چینج کرنے ہیں اور ساتھ بیگ بھی اٹھانا ہے۔" ہم دونوں گھر کی طرف چل پڑے اور گھر سے تیاری کر کے ائیر پورٹ کی جانب نکل پڑے۔ جہاز میں بیٹھ گئے اور دو گھنٹے بعد جہاز نے لینڈ کیا اور ہم فٹ سے جہاز سے اتر گئے۔ وہاں پر موجود دوست ہمیں لینے کیلیے آئے ہوئے تھے۔ ان سے مل کر بہت خوشی ہورہی تھی۔ ملاقات کے بعد پتہ چلا کہ جس منزلِ مقصود کی طرف ہم نے جانا ہے وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی جانا ممکن ہے۔ ہیلی کاپٹر تیار تھا۔ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے سے پہلے انہوں نے سویٹر اور کوٹ پہننے کو کہا۔
دوست نے پہلے ہی کہا تھا۔وہاں سردی زیادہ ہے اور برفانی علاقہ ہے۔ ہم پہلے ہی اس کےلئے بندوبست کر آئے تھے۔ ہم ہیلی کاپٹر پر سوار ہو گئے اور پندرہ منٹ بعد وہاں پہنچ گئے۔ جوں ہی اترنا تھا، منظر دیکھ کر میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ چاروں طرف پہاڑ تھے جو برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ ہر سمت آب رواں کے چشمے تھے۔ منظرنہایت ہی دلکش اور حسین تھا، چادریں چھوٹ رہی تھیں۔ درمیان میں چند خوبصورت عمارتیں موجود تھیں۔ یہ منظر وہاں آئے ہوئے تمام مہمانوں کو اپنی طرف جذب کر رہا تھا۔ اسی لمحے لاؤڈ اسپیکر سے خوش آمدید اور ویلکم کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ایسے میں ہم سیمینار ہال کی طرف بڑھنے لگے۔ ہال تک جاتے ہوئے رستے کے اطراف میں شاخ بندی کی ہوئی تھی۔ ہر طرف بہت خوبصورت منظر تھا۔ بالآخر ہم دروازے پر پہنچ گئے۔ دروازے پر موجود گارڈز کیک تقسیم کر رہے تھے۔ ساتھ لبوں پر تبسم بھی بکھیرے ہوئے تھے اور نظروں سے خوش آمدید بھی کہہ رہے تھے۔ استقبال کا منظر عجیب تھا۔ خیر! آخر کار منزل مقصود تک رسائی ہوہی گئی۔
ہم جیسے ہی اندر داخل ہو گئے۔ سامنے ایک بڑے پینا فلیکس پر ایک شخصیت کی تصویر تھی۔ جس پر لکھا ہوا تھا۔
The Most Powerful personality of Middle East.
میں دیکھ رہا تھا کہ بڑے بڑے عہدیدار، بڑی بڑی شخصیات اور دیگر معزز مہمان موجود تھے۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے بعد میں نے ہال کی دیواروں پر نظر دوڑانی شروع کر دی۔ جوں ہی دیواروں پر نظر پڑی تو دنگ رہ گیا۔ کوئی ایسی زبان ، کوئی ایسا مکتب، کوئی ایسا دینی رہنما جس نے اس شخصیت کی تعریف نہ کی گئی ہو حتی ان کے جانی دشمن نے بھی انکی تعریف کی تھی۔ ایک پینا فلیکس پر ڈیکسٹر فلکنز کا جملہ لکھا ہوا تھا۔ "یہ ایک ایسا دشمن ہے جس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں۔" دوسری دیوار پر ایک عراقی صحافی کا جملہ لکھا ہوا تھا۔ "انکو خِلب بھی کہا جاتا ہے۔"خِلب پرکشش اور جاذبیت رکھنے والی شخصیت کو کہا جاتا ہے۔ ایک اور جگہ پر لکھا ہوا تھا: "مشرق وسطیٰ کی طاقتور ترین اور طلسماتی شخصیت" ایک پینا فلیکس پر حمیرا کنول ،بی بی سی ایران کا جملہ لکھا ہوا تھا۔ "مجھے یوں لگتا ہے جنرل سلیمانی ایک اساطیری کردار تھا۔" ایک بینر پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائ کا جملہ لکھا ہوا تھا۔ "شہید سلیمانی کو ایک مکتب کی نگاہ سے دیکھے۔"
جب میری نظر سٹیج کے بیگ گروانڈ پر پڑی تو ششدرہ ہی رہ گیا۔ ایک بہت بڑا پینا فلیکس بنایا گیا تھا جس پر جمہوری اسلامی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل اسلم بیگ صاحب کا بیان لکھا ہوا تھا۔ "جنرل سلیمانی پاکستان کے قریبی اور پاکستان کے ہمدرد دوست تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے الہی بصیرت اور شجاعت سے عالمی دہشتگرد فتنوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انکا خاتمہ بھی کیا۔ پاکستان میں داعش کے نفوذ کے حوالے سے سردار سلیمانی ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ اگر شام و عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں داعش کا راستہ نہ روکا جاتا تو امریکی آلہ کار داعش کے ہاتھوں بے گناہ پاکستانیوں کا بدترین قتلِ عام ہوتا۔"
ایک گھنٹے کا سیمینار ختم ہونے کے بعد واپسی کےلئے آمادہ ہو گئے۔ میں جہاز میں سپیکر کی باتوں کو دہرا رہا تھا۔ اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جو انسانیت کی فلاح و بہبود کےلئے کام کرے، جو استکبار سے جنگ کرے اور مستضعفین کی حمایت کرے، جو مسلکوں کے درمیان نفرت کے بجائے محبت پھیلائے، جو عدالت قائم کرنے کےلئے تگ و دو کرے، وہ جو بات کرے وہی انجام دے، جو دلیل کی بنیاد پر کام کرے، جسکا ہم و غم تعلیمات اسلامی کا پرچار ہو۔ وہی جاکے ایک قوم کا ہیرو بنتا ہے ۔ وہی کسی قوم کی طاقتور ترین شخصیت بن سکتا ہے۔
جہاز لینڈ ہوا میں نے دوست سے خدا حافظی کی اور اپنے راستے پر چل پڑا۔ ذہن میں یہی بات گھوم رہی تھی کہ چوبیس گھنٹے میں دو سیمینارز اٹینڈ کیے۔ ایک میں نفرت اور قتل و غارت گری کے بیج بوئے جارہے تھے جبکہ دوسرے میں انسانت سے محبت اور ان کی فلاح و بہبود کی باتیں ہورہی تھیں۔
میں راستہ طے کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔ جو لوگ اسلام ناب کی تاریخ و سیرت سے آشنا ہوں وہ انسانیت سے محبت اور اسکی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں۔ اور جن کا تعلق تاریخ و سیرت اور حقیقت جوئی سے نہ ہو بلکہ انسان کُشی جن کا وطیرہ ہو وہی لوگ کانفرنسوں کے اسٹیجز سے بھی قتل و غارت گری اور نفرت کی ہی بات کرتے ہیں۔ وہی لوگ دوسرے مکاتب او مسالک کے ماننے والوں کو محض نظریے کے اختلاف کی بنیاد پر کافر و مشرک و بدعتی گردانتے رہتے ہیں۔ درست تاریخ و سیرت سے آشنائی نہایت ہی ضروری ہے لیکن افسوس! لوگ تاریخ و سیرت سے صحیح آشنائی نہیں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز شک کی بنیاد پر دوسروں کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں!
اس کے راہِ حل کے بارے میں سوچتے سوچتے گھر واپس پہنچ گیا۔ لیکن یہی سوال معمہ بن کر رہ گیا ہے، آخر لوگ تاریخ کا درست مطالعہ کیوں نہیں کرتے یا ان کو اس کا درست مطالعہ کرنے ہی نہیں دیا جارہا۔۔۔؟